| لوٹ کے یوں تیرے کوچے سے ہم جاتے ہیں |
| جیسے دلِ بیمار سے رنج و الم جاتے ہیں |
| اب تو طوفاں کے جیسے میرے آنگن میں غم |
| دوڑ کے آتے ہیں اور آ کے تھم جاتے ہیں |
| ساقی ترے مے خانے سے ہم یوں اٹھ جاتے ہیں |
| جیسے شکتسہ بت خانے سے صنم جاتے ہیں |
| بڑھتے ہوئے غمِ دنیا کو کچھ ہلکا کرنے |
| سوئے مے خانہ ہم اسیرِ عدم جاتے ہیں |
| دشمنِ جاں کی گلی کی اور ہمیشہ ساغر |
| ہم نہ بھی چاہیں تو بھی ہمارے قدم جاتے ہیں |
معلومات