| اس کی خوشبو تو کو بہ کو ہے ابھی |
| سو مری اس سے گفتگو ہے ابھی |
| پہلے وہ صرف گھر پہ ملتی تھی |
| پر یہ کیا میرے چار سو ہے ابھی |
| اب نہ رستوں کا پوچھتا ہوں میں |
| اور نہ منزل کی جستجو ہے ابھی |
| اک اداسی کہ کھو گیا ہوں میں |
| اک خوشی یہ کہ مجھ میں تو ہے ابھی |
| جو ترا حق ہے، وقت ہے لے جا |
| زندگی میری خوب رو ہے ابھی |
| صرف تلقینِ صبر کرتا تھا |
| تف وہی شخص چارہ جو ہے ابھی |
| نور شیر |
معلومات