اہلِ جہاں اسے ہی تو کہتے ہیں گمرہی |
میں چل کدھر رہا ہوں مرا رہنما کہاں |
خود سر ادا سے مجھ کو تو گمراہ کر دیا |
پھر جا رہی ہو جان دکھانے ادا کہاں |
دنیا میں اور باغِ ارم میں ہے فاصلہ |
پھینکا کہاں سے مجھ کو میں جا کر گرا کہاں |
تیرا شبابِ مست تقاضا کرے مگر |
وہ دل دماغ خونِ جگر دوستا کہاں |
ہر شیشہ گر سکندرِ دوراں نہیں بنا |
اتنے غرور پر بھی بنا تو خدا کہاں |
میں سر بسجدہ اور وہ عرشِ بریں پہ آج |
کس جا ہے اس کا پاؤں مرا ناصیہ کہاں |
میں نے کہا کہ رک ذرا اس نے کہا کہ کیوں |
اس نے کہا کہ چل ذرا میں نے کہا کہاں |
وہ تو کسی کے عشق نے سکھلا دیا ادب |
ورنہ تو ثانی میں کہاں یہ ریختہ کہاں |
معلومات