| داغ پھر نئے دل پر ہم سجائے بیٹھے ہیں |
| کچھ تو عیاں ہیں لیکن کچھ چھپائے بیٹھے ہیں |
| عشق سے کنارہ کر کے یوں لگتا ہے اب تو |
| گویا آگ تھی دل میں جو بجھائے بیٹھے ہیں |
| یہ خلوص کی شدت ہے ، کہ رسوا ہو کر بھی |
| لوٹ کر تری محفل میں، پھر آئے بیٹھے ہیں |
| سینے میں چھپے تھے جو ارماں طوفاں کی مانند |
| اشکوں کے تسلسل سے، سب بہائے بیٹھے ہیں |
| آج ہم سنیں گے ساری رقیب کی باتیں |
| آج ہی تو اپنے دل کو منائے بیٹھے ہیں |
| ڈس رہا ہے اجگر بن کر وہ مہرباں ہم کو |
| خونِ دل جسے ہم اپنا پلائے بیٹھے ہیں |
| وہ ہماری چاہت کا مستحق نہ تھا ساغر |
| کیا کریں کہ اب دل اس پر لٹائے بیٹھے ہیں |
معلومات