ہم کچھ تو کریں باتیں اس فتنۂ عالم کی
اس زخم کے قصے میں اک شان ہے مرہم کی
ضد چھوڑ دے ثانی اب اس حسنِ مجسم کی
حالت نہیں دیکھی کیا اس دیدۂ پر نم کی
پروانے ترے غم کا یہ آخری موسم ہے
یہ شمعِ فریبندہ مہمان ہے کچھ دم کی
امیدِ ستائش سے آزاد محبت ہے
پابندِ وفا کیوں ہو پیمانے کے موسم کی

0
8