مری تنہائی اجل مانگے ہے
غمِ دل کوئی غزل مانگے ہے
کوئی تو راہ وہاں نکلے گی
کہ جہاں ہر شے عمل مانگے ہے
کوئی اور آرزو لائی جائے
دلِ نا چیز بدل مانگے ہے
ابھی فرصت نہیں ہے ایسے میں
مرا دل آج کو کل مانگے ہے
یہ نئی آرزو کیا ہے جس کا
ابھی سے زندگی حل مانگے ہے
یوں ہی فرصت کے حسیں لمحوں میں
کوئی گیسو ابھی بل مانگے ہے
کامران

0
9