| کفن بھی میرا بنے گا کسی کی اترن سے |
| کہ میرے ہاتھ میں کاسہ رہا ہے بچپن سے |
| امید رکھتا ہوں جلاد سے ، میں سادہ لوح |
| اتار پھینکے گا پھندا وُہ میری گردن سے |
| ادھار لے کے جو بچوں کا پیٹ بھرتا ہو |
| جہیز کیسے وُہ بیٹی کو دے گا ، پنشن سے |
| ہے میری آنکھ ہی کافی یہاں برسنے کو |
| نہ میرے شہر میں آئے یہ کہہ دو ساون سے |
| میں اس کے پیار میں زندہ رہوں کہ مر جاؤں |
| وُہ اب نجات دلائے مجھے اس الجھن سے |
| مرے ہی گھر میں ہے لیکن نظر نہیں آتا |
| پڑا ہے واسطہ اب کے عجیب دشمن سے |
| میں اک خمار میں ہوں ، ہوش میں نہیں آیا |
| ابھی میں لوٹ کے آیا ہوں اس کے درشن سے |
| بس اس کا دردِ جُدائی جو مل گیا مجھ کو |
| ملے گا درد بڑا کیا اب اور ، جیون سے |
| گمان تک نہ تھا مقبول ، ایک دن وُہ شخص |
| سمجھ کے گرد ، مجھے جھاڑ دے گا دامن سے |
معلومات