روِش یہ دیکھ مرے دل میں بےقراری ہے
کہیں پہ ظلم کہیں پر سکون طاری ہے
کہیں پہ بیعتِ دنیا ہی دینداری ہے
کہیں پہ جذبہِ ایماں ہے جاں نثاری ہے
کہیں پہ لوگ ہیں مدہوش اپنی دنیا میں
کہیں پہ لاشیں ہیں بچّوں کی آہ و زاری ہے
کہیں پہ جشنِ مسرّت ہے شادیانے ہیں
کہیں ستم ہے مصیبت ہے اشک باری ہے
کہیں پہ رات کا مطلب سکون و آسائش
کہیں پہ ڈوبنا سورج کا جاں پہ بھاری ہے
لگی جو آگ تو بچّے بھی جل کے خاک ہوئے
فضا میں درد ہے خجلت ہے شرم ساری ہے
اہم امان ہے اپنی یا نصرتِ مظلوم
یہ جنگ زندہ ضمیروں میں کب سے جاری ہے
چلو یہ سوچ کے ہی ظلم کے خلاف اٹھو
ہے آج اُن پہ مصیبت کل اپنی باری ہے
جواب اس کا ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہوگا
اب ایسے وقت میں کیا اپنی ذمےداری ہے
جو سو رہا ہے وہ اپنا ضمیر ہے سالم
جو مر رہی ہے وہ انسانیت ہماری ہے

2
18
اچھی نظم ہے جناب
کچھ اشعار بہتری کا تقاضا کرتے ہیں

روِش یہ دیکھ مرے دل میں بےقراری ہے
کہیں پہ ظلم کہیں پر سکون طاری ہے
----- دل میں بے قراری ہونا کوئی روش نہیں ہوتا - ظلم کا مخالف سکون طاری ہونا نہیں ہوتا

کہیں پہ بیعتِ دنیا ہی دینداری ہے
کہیں پہ جذبہِ ایماں ہے جاں نثاری ہے
--- مصرعوں میں بہتر ربط ہونا چاہیئے

جو سو رہا ہے وہ اپنا ضمیر ہے سالم
جو مر رہی ہے وہ انسانیت ہماری ہے
-- سالم کی نسبت سے دوسرے مصرعے میں کچھ ٹوٹنے کا ذکر ہو تو شعر بہتر ہو جائیگا

سب سے اچھا شعر یہ لگا

چلو یہ سوچ کے ہی ظلم کے خلاف اٹھو
ہے آج اُن پہ مصیبت کل اپنی باری ہے

بس اس میں یہ دیکھ لیں کہ "ان" کا محل نہیں بنتا - ان کا مطلب تو ہوا آپ کسی خاص کا ذکر کر رہے ہیں جبکہ آپ نے کسی کا ذکر نہیں کیا - یہ اگر کچھ اس طرح ہوتا (وزن سے قطع نظر) کہ آج کسی پہ مصیبت ہے یا آج اوروں پہ مصیبت ہے کل اپنی باری ہے تو بات زیادہ خوبصورت ہوتی -


0
بہت شکریہ

0