ہاتھ میں ترے اب تک میرا ہاتھ باقی ہے |
ذہن میں ترے گویا کوئی بات باقی ہے |
عشق میں فنا ہونا تُو نہیں سمجھ پایا |
گویا تجھ میں اب تک بھی ذاتیات باقی ہے |
عشق کو دھرم کہتا ہے مگر ابھی تجھ میں |
کتنا ! وہم باقی ہے ، ذات پات باقی ہے |
کاٹ تو دی ہے شہ رگ پر زرا ٹھہر جاؤ |
کیوں کہ اب بھی بسمل میں کچھ حیات باقی ہے |
معلومات