تمہارے سر ہر اک الزام تو نہیں بہتر |
ستمگروں میں کبھی آسماں بھی ہوتا ہے |
برعکس ہو گئی ہے اب یہاں حقیقت یہ |
کہ راہزن میں کبھی کارواں بھی ہوتا ہے |
ترے ستم کی تپش میں یہ دل جلے تو جلے |
شرارِ غم میں یہ جل کر جواں بھی ہوتا ہے |
ہر ایک گام پہ ڈھاتے رہے ستم جو کبھی |
محبتوں کا انہیں پر گماں بھی ہوتا ہے |
جگر میں جائے تو باہر کبھی بھی ہو نہ سکے |
بتاؤ ایسا ہی تیرِ کماں بھی ہوتا ہے |
وہی شکستوں کا ڈر ہے وہی ہے ماتمِ غم |
تماشا عشق کا دیکھو یہاں بھی ہوتا ہے |
مجھی سے جس کو ملا ہے ہر اک قدم پہ فریب |
اسی جنوں میں مرا امتحاں بھی ہوتا ہے |
سمجھ کے تنکا مرے دل نے یہ اٹھا بھی لیا |
وگرنہ بارِ محبت گراں بھی ہوتا ہے |
معلومات