تمہارے سر ہر اک الزام تو نہیں بہتر
ستمگروں میں کبھی آسماں بھی ہوتا ہے
برعکس ہو گئی ہے اب یہاں حقیقت یہ
کہ راہزن میں کبھی کارواں بھی ہوتا ہے
ترے ستم کی تپش میں یہ دل جلے تو جلے
شرارِ غم میں یہ جل کر جواں بھی ہوتا ہے
ہر ایک گام پہ ڈھاتے رہے ستم جو کبھی
محبتوں کا انہیں پر گماں بھی ہوتا ہے
جگر میں جائے تو باہر کبھی بھی ہو نہ سکے
بتاؤ ایسا ہی تیرِ کماں بھی ہوتا ہے
وہی شکستوں کا ڈر ہے وہی ہے ماتمِ غم
تماشا عشق کا دیکھو یہاں بھی ہوتا ہے
مجھی سے جس کو ملا ہے ہر اک قدم پہ فریب
اسی جنوں میں مرا امتحاں بھی ہوتا ہے
سمجھ کے تنکا مرے دل نے یہ اٹھا بھی لیا
وگرنہ بارِ محبت گراں بھی ہوتا ہے

0
16