بینا ہے کیا وہ آنکھ جو تجھ تک نہ جا سکے |
جینا ہے کیا اگر کوئی تجھ کو نہ پا سکے |
گرچہ ہوئی ہے عشق میں یہ آنکھ اشکبار |
“ یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے” |
انسان ہے بنا جو امانت کا ہے امیں |
ارض و سما جبل کہاں یہ بوجھ اٹھا سکے |
تیری تلاش میں ہے بلٰی کہہ کے اب تلک |
دل سے ہے کون تیری محبّت بُھلا سکے |
رُکتی ہے ہر حسین پہ جا کر اگر نظر |
سب اس کو ڈھونڈتے ہیں تجھے جو ملا سکے |
حیرت میں عقل ہے ترے بارے میں سوچ کر |
وسعت ہے دل کی کیسی جہاں تُو سما سکے |
پنہاں ہیں تیری ذات کا ہر ذرّے میں ثبوت |
روحوں سے کون تیری محبّت مٹا سکے |
طارق نظر جو آئے فریبِ نظر نہیں |
ہے اور کون جلوے جو ایسے دکھا سکے |
معلومات