ہر سمت ہے سامان ہوا نوحہ گری کا |
ماحول مگر کیوں ہے یہ آشفتہ سری کا |
غفلت کے لحافوں میں پڑے سوئیں شب و روز |
حق ان سے ادا کیسے ہو پھر ہم سفری کا |
گر ہو گا حساب ان سے تو کس بات کا ہو گا |
رکھتے ہیں بہانہ تو فقط بے خبری کا |
جب لوٹ کے جائیں گے پذیرائی ملے گی |
کچھ خوف نہیں اُن کو رہا پردہ دری کا |
ہے جن سے توقع کہ مسیحائی کریں گے |
بیمار ہیں ساماں ہی نہیں چارہ گری کا |
سوچو تو ہے یہ سلسلہ کیونکر ہوا تخلیق |
“آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا” |
ملّا نے بھی انکار شہادت سے کیا ہے |
طارق اُسے لالچ تو دیا حور پری کا |
معلومات