دن یہ مہینوں پھر سالوں میں بدل گئے
آخر تڑپ تڑپ کر ہم بھی سنبھل گئے
اک ہم ہیں خواب سے تیرے جو نہ آسکے
اک تم ہو جو مرے کوچہ سے نکل گئے
دنیا جوانی میں جاتی ہے بہک اے شیخ
تم تو یہاں پہ پیری میں بھی پھسل گئے
بس زیرِ چشم دفنا رکھے تھے خواب جو
آتش ِشبِ فسردہ سے سب وہ جل گئے
ہم تو بذاتِ خود سے ہو نے ہیں اب جدا
ہے شکر تم تو چلو تم کو ہو مل گئے
ساری عمر اذیت دےکر عبید پر
الفت کے سال اک دو لیکن بہل گئے

101