تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
گدی نشین کوئی تو اہل نظر ملے
دیوانگی کا لطف دے مستی دے عشق کی
پینے کو ہم تیا ر ہیں ساقی اگر ملے
حاجت رہے نہ دل میں کسی اور چیز کی
سنت کا پاسباں کوئی ہل ہنر ملے
اک نکتہ معرفت کا جو دل میں اتار دے
جام قلندرانہ کوئی با اثر ملے
جن کی نگاہِ لطف سے روشن ضمیر ہو
درویش ہم کو ایسا کوئی با خبر ملے
یہ تاج و تخت، دولت و زر سب فریب ہیں
دنیا کا زر نہ چاہیے آقا کا در ملے
دل میں اثر کریں ترے الفاظ اے عتیق
اے کاش لکھنے کے لیے وہ آب زر ملے

0
5