چلے ہیں کاٹنے کو آستیں کے پالے ہوئے |
ہمارے ہاتھوں جنہیں دان سب اجالے ہوئے |
بہشت راس نہ آئی، تو لی زمیں ہم نے |
سکون پا نہ سکے خُلد کے نکالے ہوئے |
فساد ویسے بھی انسانیت کے حق میں نہیں |
وگرنہ آج کے ہیں لوگ دیکھے بھالے ہوئے |
نصیب کا جو لکھا ہے وہ مل کے رہتا ہے |
لگے ہیں ماتھے وہی لوگ جو تھے ٹالے ہوئے |
گذشتہ رات ہؤا کیا کہ لڑکھڑاتے رہے |
بڑی ہی دیر تلک خود کو خود سنبھالے ہوئے |
کیا تھا جس نے بھی دعویٰ، غلط نکل آیا |
مگر یہ سچ ہے کہ ہمدرد اپنے چھالے ہوئے |
پلٹ کے گود میں اپنی ہی دیکھو آن گرے |
رشیدؔ درد کے سکّے سبھی اچھالے ہوئے |
رشِید حسرتؔ |
۱۳ اپریل ۲۰۲۵، دوپہر پونے دو بجے یہ غزل مکمل ہوئی |
معلومات