دل بجھ ہی تو  گیا ہے زیست کی رونقوں سے
منزل آگے بھی کوئی ہے کیا ان سروں سے
وقت کا کرتب بھی تو عجیب ہے میرے یار
آساں بھی کیسے ہے سامنا کرنا یوں دکھوں سے
ہے رخ ایسے فطرت انساں تو سوچے کیوں
مطلب کیسے نہیں ہے بھلا ایسے سکوں سے
منزل کیوں نظر آرہی تھی ایسے عالم میں
اصلیت چپھتی نہیں ہے بھلا کیا دلوں سے

0
63