| شب کی آہٹ پہ گزرتی ہے کہانی میری |
| وقت کیا مانگے اجالوں سے نشانی میری |
| شورِ آزار کسی کو نہ سنائی دے گا |
| جذب سناٹوں میں ہوتی ہے روانی میری |
| زرد چھاؤں سے نکل لمس نہ جم جائےکہیں |
| سینکنے آؤ کبھی دھوپ سہانی میری |
| یہ خسارا ہے مِرا ضد پہ اڑے ہی رہنا |
| ان سے شکوہ بھی نہیں بات نہ مانی میری |
| تیری یادیں لئے پھرتا ہوں میں چرواہا سا |
| دم سنبھالے گی سرِ طور شبانی میری |
| دشت میں سانس تو لینے دو زمانے والو |
| تم نے اب دیکھی بہت نقلِ مکانی میری |
| اشک سے دھوئے گی اک روز بیاضیں شؔیدا |
| یاد آئے گی اسے شعر بیانی میری |
معلومات