اُن کی محفل سے نہ کیوں رحمتِ یزداں نکلے |
جن کی محفل سے کبھی بادہ و پیماں نکلے |
پورا کر کے سَبھی اُس بزم سے ارماں نکلے |
ہم ہی بس مضظَرب الحال پریشاں نکلے |
دیکھو کب پھیلتی ہے دنیا میں وحشت میری |
دیکھو کب گھر سے مِرے راہِ بیاباں نکلے |
ہم جنہیں سمجھے تھے عمرِ رواں کے پیچ و خم |
غور سے دیکھا تو وہ گیسوئے جاناں نکلے |
اب نہیں ہوتی نگہبانی دلِ خستہ کی |
اب مِرے جسم سے یہ حصہِ ویراں نکلے |
سَرگُزَشْتِ درِ جاناں میں کہوں کیا شاہؔد |
گئے جو بھی وہاں کھو کے دل و ایماں نکلے |
معلومات