| بعد مدت کے (مرےدل کا وہ) مطلوب، دِکھا |
| چہرہ پُژ مُردہ دِکھا جسم بھی مسلُوب دِکھا |
| چھوڑے جاتا ہے تجھے شخص کوئی بِن دیکھے |
| جان پر کھیل تو راوی میں ابھی ڈوب، دِکھا |
| میں تری راہ سے خود اپنا ہٹا لوں گا وجود |
| کچھ ثبوت اس کا (کہ ہے غیر سے منسوب)، دِکھا |
| میرا سایہ تھا جسے تو نہ ابھی جان سکا |
| زرد چہرہ لیئے جو راہ میں مجذوب، دِکھا |
| اس کی آنکھوں میں ابھی مائے کی چربی ہے نئی |
| بات کرنا بھی مرا اب اسے معیوب دِکھا |
| درد کچھ ماورا تھا آہ و فغاں میں اس کی |
| ایک لمحے کو مجھے نالۂِ یعقوبؔ دِکھا |
| میں نے ہر ایک زمانے پہ نظر دوڑائی |
| تو مجھے خوب دکھا، خوب دکھا، خوب دکھا |
| اس کا چہرہ ہے قمر، ساری ادائیں بھی حسیں |
| میں نہ کہتا تھا الگ سب میں ہے محبوب؟ دِکھا؟ |
| کل تلک تو ہی تو منظورِِ نظر تھا حسرتؔ |
| کیا ہؤا آج بِلا وجہ جو معتوب دِکھا |
| رشید حسرتؔ |
| ۲۰ اپریل ۲۰۲۵ کو رات ۰۱ بج کر ۱۲ منٹ پر یہ غزل مکمل ہوئی۔ |
معلومات