| بے سبب تِیرگی میں اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| ایک پُر جوش ندیا کے دھارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| اور کُچھ بھی نہ تھا، اُن کا تھے حوصلہ، ظُلم کے دور میں |
| بے سہاروں کے یہ بھی سہارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| لب کُشائی پہ لاگُو تھی گردن زنی، سربکف ہر گلی ہر طرف ہم ہُوئے |
| سُولِیوں پہ یہ سرکش اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| پِھر ہُؤا یُوں کہ ہر شہر، ہر گاؤں میں ناچتی بُھوک تھی |
| فائدے کیا، کہ جو تھے خسارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| بُھول بیٹھے ہو کیا کِس نے سِینچا چمن، کِس نے قُربانی دی |
| بھائی بہنوں کے، ماں کے دُلارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| ہم نہِیں مانتے ایسی سرکار کو، کل کے غدّار کو |
| پِھر سروں سے عمامے اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| تُو تو محبُوب ہے اے کہ ارضِ وطن، یہ مُصوِّر و شاعر و یہ کوہکن |
| کیسی گھٹناؤں سے پر گُزارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| ہم مُقلِّد ہُوئے ساحِرؔ و فیضؔ کے اور جالِبؔ ہمارے مُقلَّد ہوئے |
| قرض اِن کے نہ ہم سے اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| یہ رِیاست ہے کیا؟ کیسی حکمرانِیاں؟ چھائِیں وِیرانِیاں |
| چاند حسرتؔ گیا پِھر سِتارے گئے، ہم جو مارے گئے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات