ثانی پوچھے گئے عورت کے مسائل مجھ سے
میں نہ شاعر ہوں نہ صوفی ہوں نہ حکمت کا امام
پھر بھی نیرنگیِ دوراں میں تدبر جو کیا
حق نے اس دل میں کیا خوب ہی بہتر الہام
یہ مساوات کی تعلیم یہ آزادیِ زن
جس کی ہر ایک لپک بڑھتی رہی تا اسلام
اس کے آغاز میں ہم نے جو ذرا غور کیا
آتشِ زن میں ملے ہم کو فرنگی اوہام
جس نے عورت کو بنایا ہے کلیسا کی کنیز
اب کے آزادیِ نسواں کے وہی دے احکام
وہی عورت کے لیے راحتِ پیہم ڈھونڈے
جس کا ماضی رہا عورت پہ مصیبت آلام
بنتِ حوا کو سمجھنا یہ ضروری ہوگا
جس کو آبادی سمجھتی ہو وہ ہے ابدی دام
شبِ افرنگ میں کرتی ہے بھلا تو کیا تلاش
شام سے بڑھ کے بھی تاریک ہیں جس کے ایام
جس نے عورت کو فقط جسم سمجھ رکھا ہے
ترے جذبات کو دے گا وہ بھلا کوئی مقام
جس کے مذہب میں کھلونا تو ٹھہر جاتی ہے
اس کے مذہب میں بھلا ہوگا ترا کوئی مقام
جس نے در در پہ نچایا ہے تجھے کر کے کنیز
جس نے بازار میں بیچا تجھے کر کے نیلام
یہ مساوات کی تعلیم و صدا کس کی ہے
اور آزادیِ نسواں بھی بنی کس کا پیام
کس نے عورت سے اتارا ہے یہ عصمت کا حجاب
سرِ بازار اسے کس نے کیا ہے بدنام
خونِ نسواں سے تو رنگیں ہے فرنگی تہذیب
کیسے اسلام پہ اس خوں کا لگاتے الزام
جس نے ہر راہ میں لوٹے ہیں نسائی جذبات

0
14