| رسمِ وفا اس ادا سے میں نبھاتا گیا |
| جب جیسے تو نے کہا میں سر کٹاتا گیا |
| کوئی ٹھکانہ نہیں تھا عشق کی راہ میں |
| بس منزلِ شوق کی میں خاک اڑاتا گیا |
| صد بار تیرے تصور نے دیا حوصلہ |
| ہر بار اپنی جاں میں تجھ پر لٹاتا گیا |
| شاید کسی گام پر تجھ سے ملاقات ہو |
| یوں جستجو میں تری خود کو مٹاتا گیا |
| جب تو نہیں تھی تو ہر لمحہ عزیزِ جاں تھا |
| مل کر تجھے زندگی سے جی چراتا گیا |
| اس راہِ پُر سوز پر ساغر کئی لٹ گئے |
| جو بھی گیا اپنی جاں سے ہی وہ جاتا گیا |
معلومات