زندگی سے کیا پایا؟
دوست بے وفا پایا
خوش نصیب ہیں، ہم نے
درد بے دوا پایا
رہ گئیں تمنائیں
دل مَرا ہوا پایا
ہم نے زخم ہائے دل
اُن سے بارہا پایا
اُن کی بزم میں جا کر
اپنا مدعا پایا
تُو گیا تھا اُن کے ہاں
داستاں سُنا پایا؟
جب ہوا کبھی میں گُم
اُن کے در پڑا پایا
مائلِ کرم اور وہ
یہ کہاں لِکھا پایا؟
تیرے ہوتے دشمن کو
خنجر آزما پایا
ہم لگے عدو کے ہاتھ
ہم نے غم جُدا پایا
اُن سے روٹھ کر شاہدؔ
زیست کو خفا پایا
محمدشاہدؔعلی صابری

0
89