| نشانے بھی دشمن کے مجھ کو لگے پھر |
| چراغوں کو اپنے بجھا کر بھی دیکھا |
| سبھی آندھیوں نے جلایا ہے مجھ کو |
| ہواؤں سے دل کو لگا کر بھی دیکھا |
| ستمگر نہ جانے ستم کے سوا کچھ |
| وفاؤں میں خود کو جلا کر بھی دیکھا |
| نہ دل میں صنم کے جگہ مل سکی تھی |
| بہاروں کو دل میں سجا کر بھی دیکھا |
| سمندر کی لہریں بھی دشمن بنی تھیں |
| کناروں سے خود کو ہٹا کر بھی دیکھا |
| ہراک وقت مجھ کو بہت یاد آئے |
| وہ یادوں سے اپنی بھلا کر بھی دیکھا |
| بدلنا تھا اس نے نہ بدلا ہے وہ بھی |
| اناؤں کو اپنی مٹا کر بھی دیکھا |
معلومات