| خوش رہے تو بھی سدا، خدا حافظ! |
| بس یہی کی ہے دعا، خدا حافظ! |
| جاتے ہوئے کئی بار مُڑے ہم |
| ہم سے کہا نہ گیا، خدا حافظ! |
| تیرے یوں جانے کے بعد مرے بھی |
| ہونٹوں پہ بس یہ رہا، خدا حافظ! |
| دیر تلک رکوں، میں تجھے دیکھوں |
| اب تو ہی مجھ کو بتا، خدا حافظ! |
| ہم کئی بار گلے ملے، روئے |
| یوں کئی بار کہا، خدا حافظ! |
| اُس نے لرزتے لبوں سے کہا تھا |
| پھر سے گلے تو لگا، خدا حافظ! |
| آخری بار مجھے کہا اُس نے |
| ساتھ ذرا مرے آ، خدا حافظ! |
| بھیگی سی پلکوں کو چھو کے کہا بس |
| اشک نہ اور بہا، خدا حافظ! |
| لمس ترا تو ہمیشہ رہے گا |
| ہاتھوں سے ہاتھ مِلا، خدا حافظ! |
| آنکھیں میں بند کروں تو ذرا رُک |
| بند کی آنکھیں تو جا، خدا حافظ! |
| کامران |
معلومات