پھر ماؤں بہنوں بیوی کی عصمت ہے تار تار
پھر بوڑھوں بچوں پہ بھی چلی جاتی ہے کٹار
پھر ظلم ناچتا ہے یہ بھارت میں ننگا ناچ
پھر حرکتِ بشر پہ ہے حیوان شرمسار
ظالم کی چپقلش میں بھی بیچے گئے ضمیر
اہلِ قلم بھی ہو گئے ظالم کے ہی اجیر
ظالم ہی اب ہوئے یہاں انصاف کے حکم
بے جرم خونوں سے رنگا اب دامنِ امیر
ہر ذرۂ زمین ہے خوں سے لہو لہان
قاتل بنا ہے ہند میں اب اپنا پاسبان
ہر اک زباں پہ آج سسکتی سی آہ ہے
ہندوستاں پہ آ گیا یہ کیسا امتحان
بنتا ہے یاں امیر جو قاتل ہزار کا
زندوں کے ساتھ ساتھ ہی قاتل مزار کا
کہتے ہیں پھر بھی پہلے سے بہتر ہے انڈیا
افسوس ہے کہ تم کو ہے شکوہ بہار کا
جرمِ نجیب کیا تھا کہ اغوا کیا اسے
بوڑھی ضعیف ماں ہوئی کر کے تلاش چور
حرکت پہ ہند سارا ہی خاموش ہے کھڑا
ہر شخص لگ رہا ہے کیوں انسانیت سے دور
افراز کو درندوں نے مارا ہے کس طرح
مرنے کے وقت اس نے پکارا ہے کس طرح
یکلخت پھر جلا دیا ظالم نے کس طرح
آنکھوں کے سامنے وہ شرارہ ہے کس طرح

0
12