| تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا |
| رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا |
| خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟ |
| تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا |
| بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے |
| بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا |
| مُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟ |
| رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ غِلاف رہا |
| کبھی تھا بِیچ میں پریوں کے، اب جِنوں کے بِیچ |
| یہ شہر میرے لیئے گویا کوہ قاف رہا |
| وُہ شخص جِس کو سُکوں میرے بِن نہ آتا کہِیں |
| نہِیں تھا میرا، نیا ایک اِنکشاف رہا |
| خُدا کرے کہ وفا کا بھرم رہے قائم |
| مُعاملہ تھا بڑا صاف اور صاف رہا |
| میں اپنے فن کا پُجاری ہوں دُوسروں کا نہِیں |
| بڑا ہے وہ کہ جِسے سب کا اعتراف رہا |
| رشِیدؔ کوسا کِیا میں یہاں مُقدّر کو |
| وہاں چُھپا ہؤا سِینے میں اِک شِگاف رہا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات