لب پہ جب نام تیرا آتا ہے |
بحرِ اشک آنکھوں سے بہاتا ہے |
۔ |
بن ترے اے مرے حسیں دلبر |
دل دھڑکنا ہی بھول جاتا ہے |
۔ |
خوں نکلنے لگا ہے آنکھوں سے |
کوئی اتنا بھی کیا رلاتا ہے؟ |
۔ |
عشق ناؤ کبھی ڈبوتا ہے |
اور کبھی پار خود لگاتا ہے |
۔ |
ق |
"واسطے جاں کے ہے کبھی راحت |
زخم دل پر کبھی لگاتا ہے |
مژدۂ وصل ، بارِ ہجراں سے |
عشق ہر طرح آزماتا ہے" |
۔ |
صرف اس کے خیال سے عاجز |
میری پلکوں پہ نم بھر آتا ہے |
معلومات