نصیبِ خستہ کی معراج و عید چاہتا ہوں |
میں اپنے چاند کی اک بار دید چاہتا ہوں |
تمام زخمِ دل اب ہو گئے پرانے سے |
اے مہرباں ! کوئی گھاؤ جدید چاہتا ہوں |
مریضِ عشق کو جو کھینچ لائے مرگھٹ سے |
مرے خدا کوئی ایسی امید چاہتا ہوں |
اسے سناؤں کہ وہ ظلم پھر کبھی نہ کرے |
ستم پہ شیخ جی ایسی وعید چاہتا ہوں |
ہے اک نگاہ کا تیری مجھے تو اب بھی خمار |
ترا کرم کوئی ایسا مزید چاہتا ہوں |
بہت ستایا ہے مخلوق نے تری یا رب |
سکون اب پئے حضرت فرید چاہتا ہوں |
معلومات