دلِ عشاق پُر فگار ہوئے |
شوقِ دیدِِ صنم میں خوار ہوئے |
۔ |
چشمِ جاناں کے ایسے وار ہوئے |
بار بار ان کے ہم شکار ہوئے |
۔ |
اک جھلک گل بدن کی دیکھی تو |
پارۂ دل کئی ہزار ہوئے |
۔ |
چشمِ بد دور آنکھیں موتی چور |
دیکھ اپنے تو حال زار ہوئے |
۔ |
دیدِ جاناں سے تھا سکوں کا گماں |
ہم تو درشن سے بے قرار ہوئے |
۔ |
نہیں کوئی جو پوچھے حالِ دل |
اپنے ہم خود ہی غم گسار ہوئے |
۔ |
رزمِ حسن و خرد میں اے عاجز |
کئی مجنوں تہہِ مزار ہوئے |
معلومات