دل اس کے در سے پھر کے نہ آیا تو کیا ہوا
اس بے وفا پہ خود کو مٹایا تو کیا ہوا
ہیں کوچۂ حبیب کو تاریکیاں پسند
پھر شمعِ آرزو کو بجھایا تو کیا ہوا
جب غیر سے ہی اس کو محبت ہوئی ہے راس
میں ساری عمر اس سے نبھایا تو کیا ہوا
بستر مرا تو کانٹوں سے بھرپور ہی رہا
تیری رہوں میں دل ہی بچھایا تو کیا ہوا
ہے کون وہ جو بوسے پہ کرتا ہو اکتفاء
نازک بدن کا پاؤں دبایا تو کیا ہوا
لمحہ بہ لمحہ بجلیاں دل پر مرے گریں
اس نے جو تھوڑا اشک گرایا تو کیا ہوا
اللہ تیرے دل کو بھی شاداب ہی رکھے
ثانی کے دل کو تو نے جلایا تو کیا ہوا

0
17