بسر کیا ہے مجھے تو انہی خیالوں نے
شعور و عقل میں آئے سبھی سوالوں نے
بھروسا کیسے کر کے آ گیا اُن پر
جنہیں خرید لیا تھا ترے نوالوں نے
قدم قدم کا مقدر کہ تیری راہ چلیں
ہمیں تو روک لیا تھا خراب حالوں نے
حقیر جان کے چھوڑا تھا تونے بستی کو
کہ دیکھ شہر بسائے انہی بے حالوں نے
تمہاری چال بتاتی ہے درد چہرے کے
تمہارے جسم کو توڑا ہے کس کی چالوں نے؟
سید ہادی حسن

31