| نہ اب حسینؑ نہ لشکر حسینؑ کا ہوگا |
| سفر بھی زینبِ مضطر کا بے ردا ہوگا |
| سنبھالے دل کو یہ شامِ غریباں میں زینبؑ |
| یہ کہتی ہی رہیں بھائی ہمارا کیا ہوگا |
| چلے گا کارواں مظلوموں بے کسوں کا جب |
| بغیر بازو کے غازیؑ کو دیکھنا ہوگا |
| بغیر پردے کے کربل سے کوفہ شام تلک |
| کلیجہ بی بی کا چھلنی بھی ہوگیا ہوگا |
| صدائیں باغی کی گونجی ہیں اور ساتھ کہا |
| علیؑ کی بیٹیوں کو مارو تو بھلا ہوگا |
| سروں پہ پھینکو گرم پانی مارو پتھر بھی |
| لہو میں ڈوبا وہ چہرہ تو جل گیا ہوگا |
| دکھا کے پھینکتا بچوں کو شمر ہے پانی |
| کڑکتی دھوپ میں پیاسوں کا حال کیا ہوگا |
| سکینہؑ بی بی کے رخسار نیلے کر ڈالے |
| نہیں بھروسہ کہ رخ بھی وہاں پھٹا ہوگا |
| چلایا کانٹوں بھری راہوں میں اسے بے خطا |
| وہیں وہ کانٹوں پہ بیمار تو گرا ہوگا |
| تڑپ کہ کہتی تھیں صائب وہاں پہ بنتِ علیؑ |
| سناں پہ سر نہ اچھالو تیرا بھلا ہوگا۔ |
معلومات