گھبرا کے امتحاں سے یہاں جو پلٹ گیا
وہ مقصد حیات سے ہی اپنے ہٹ گیا
موسم بدلتے رہتے ہیں، سوکھا کبھی تو مینھ
"برسات ختم ہو گئی دریا سمٹ گیا"
مدت سے بچھڑے یار کی گر دید ہو کہیں
دل کی مٹانے تشنگی پھر وہ چمٹ گیا
فاتح اسی کو کہہ کے پکارے گیں سارے لوگ
میدان کار زار میں جو شخص ڈٹ گیا
ہائے ستم ظریفی نہ در کے، نہ گھر کے ہیں
تھا سر پہ سائبان فقط، وہ بھی پھٹ گیا
سچ سچ بتا ہمیں کہ ہوا ماجرہ ہے کیا
راہوں سے کارواں یہ کہاں کیسے چھٹ گیا
چرچے کبھی زمانہ میں ناصؔر ہمارے تھے
بے بس ہیں جب سے رابطہ لوگوں سے کٹ گیا

0
12