| *غزل* |
| ہم کو اس دشت کے اس پار سلا کر رکھنا |
| اپنی چھاؤں کی ہری شاخ جھکا کر رکھنا |
| راہ اپنا بھی اندھیرا ہے بھٹکنے والا |
| اب دِیا طاق پہ تم بھی تو بجھا کر رکھنا |
| دشتِ ہجراں سے گزارا ہوں میں جاتا لوگو |
| وصل زادوں سے گزارش ہے دعا کر رکھنا |
| ہنسنے والوں کا نیا شہرِ ستم ہے آگے |
| رسمِ چاکاں ہے علم غم کی اٹھا کر رکھنا |
| سرد آہیں بھی نگلتی ہے زمانے کی تپش |
| درد انمول خزانہ ہے چھپا کر رکھنا |
| گھیر لیتے ہیں محبت کے تقاضے غم کو |
| درد کی آگ رگِ جاں میں جُٹا کر رکھنا |
| لفظ خوشبو کو ترستے ہیں بچارے شیدؔا |
| ان کتابوں میں نئے پھول سکھا کر رکھنا |
| *علی شیدؔا* |
معلومات