| گھر ہمارے تھے بن چراغوں کے |
| اور پھر آئے دن چراغوں کے |
| بانٹنے میں لگے ہیں اجیالے |
| بڑھتے جاتے ہیں سِن چراغوں کے |
| آنکھ روشن درِ رسول پہ ہے |
| بھاگ جاگے ہیں ان چراغوں کے |
| اپنی خوشیاں ہی نا سمیٹ فقط |
| ایک شب غم بھی گن چراغوں کے |
| دن چڑھا تو بجھا دیا اُن کو |
| زیرِ احساں تھے جن چراغوں کے |
| دوسروں کو کریں فراہم یہ |
| راستے خود کٹھن چراغوں کے |
| دل کو حسرتؔ لپیٹ میں رکھا |
| ہائے شعلے تھے کن چراغوں کے |
| رشید حسرتؔ |
| ۱۲ مئی ۲۰۲۵ |
معلومات