گردوں میں مسافت سے تھکتے نہیں ہیں تارے
تھک کر زمیں کے اوپر گرتے نہیں ہیں تارے
معلوم نہیں ان کو منزل ملے گی کب پر
رکھتے ہیں سفر جاری رکتے نہیں ہیں تارے
جتنی بھی ہو تاریکی پروا نہیں یہ کرتے
ظلمت کدے سے بالکل ڈرتے نہیں ہیں تارے
گو دن کے اجالے میں اوجل ہیں نگاہوں سے
سورج کی ضیا سے پر جلتے نہیں ہیں تارے
لیتے ہیں جنم تازہ اک اور جہاں میں پھر
مرکز پہ فدا ہو کر مرتے نہیں ہیں تارے

0
18