آؤ کبھی تو ہوگی ان اوہام کی شکست
کب تک دیا کریں گے یہ لات و ہبل فریب
یہ ذرہ ہائے نو بہ نو اس کے ہی عکس ہیں
در کاینات جتنا بھی ہوتا ہے غل فریب
اب گلشنِ حیات پہ جو بھی بہار ہو
ہرگز کبھی نہ کھائیں گے بلبل نہ گل فریب
پردے سے کیسے خلق کو دیتی ہے آج بھی
ثانی کے ہاتھ سے وہ بجا کر بگل فریب
اتنی ہی ڈھیل ہوتی ہے جتنی ہو شدتیں
بدلے وہ بھیس پھر بھی یوں جاتا ہے کھل فریب
پروانہ رازدانہ یوں کہتا ہے مجھ سے آج
جو اشکِ چشمِ شمع ہے دھوکہ ہے کل فریب
النفس والهوىٰ مياں كل من البلاء
إن سال بالسكوت ما؟ بالجهر قل: فريب

0
20