اب بھی نہ تیرے ہاتھ اُٹھے مغموم دیکھ کر
سو دکھ ہوا ہے یہ دلِ مرحوم دیکھ کر
ہم لوگ کیا کریں کہ وہ اب بھی نہیں ہے خوش
یہ شہر اپنے نام سے موسوم دیکھ کر
ویسے تو اس کی بات سے بچہ بھی نا دبے
ہم کو دبا رہا ہے وہ مظلوم دیکھ کر
آؤ کرائیں بات مقدر کی وقت سے
یارو خیال آتا ہے یہ زوم دیکھ کر
ہم کو تمہاری صنف سے رتی غرض نہیں
شعروں پہ داد دیتے ہیں مفہوم دیکھ کر

154