| اکثر جسے تعلیم سے رغبت نہیں ہوتی |
| اُستاد سے بھی اسکو عقیدت نہیں ہوتی |
| اللہ نہ کہتا کبھی احمد کو معلّم |
| استاد کی لازم جو اطاعت نہیں ہوتی |
| کچھ وقت گزرتا جو کتابوں کے بھی ہمراہ |
| تو آپ کو ہر وقت کی زحمت نہیں ہوتی |
| آداب بجا لاتے جو استاد کے آگے |
| تو پھر یوں ادیبوں میں خجالت نہیں ہوتی |
| استاد کو استاد سمجھتے ہیں جو انکو |
| اخلاق کی الفاظ کی قلّت نہیں ہوتی |
| تعلیم بھی آ جاتی اگر زادِ سفر میں |
| پردیس میں اس طرح اذیت نہیں ہوتی |
| آنکھیں جو کتابوں کو نہیں دیکھتی اُن میں |
| بینائی تو ہوتی ہے بصیرت نہیں ہوتی |
| شامل جو نہیں ہوتی ہے بنیاد میں تعلیم |
| مضبوط کبھی ایسی عمارت نہیں ہوتی |
| استاد سے بڑھ کر کوئی ناصر نہیں ہوتا |
| تعلیم سے بڑھکر کوئی نعمت نہیں ہوتی |
| استاد کی صحبت میں جو بیٹھے نہیں اُن کو |
| تسکین سے کچھ سننے کی عادت نہیں |
| ہوتی |
| سکّوں سے نہ تولو کبھی استاد کی محنت |
| دولت سے ادا علم کی قیمت نہیں ہوتی |
| جو جانتے ہیں علم بھی اک امرِ خدا ہے |
| اُن کے لیے تعلیم تجارت نہیں ہوتی |
| اللہ کا ہے شکر جنہیں مل گئی تعلیم |
| ہر ایک کی قسمت میں یہ دولت نہیں ہوتی |
| اقوالِ پیمبر پہ اگر کرتے عمل بھی |
| اس قوم میں باقی یہ جہالت نہیں ہوتی |
| ملتی نہیں سالم کو گر استاد کی شفقت |
| اس نظم کو لکھنے کے سعادت نہیں ہوتی |
معلومات