| مرنے دیا مُجھے، نہ ہی جِینے دِیا مُجھے |
| بانٹا تھا جِس کا، درد اُسی نے دِیا مُجھے |
| میں جِس مقام پر تھا وہِیں پر کھڑا رہا |
| لُوٹا مُجھے کِسی نے، کِسی نے دِیا مُجھے |
| فصلِ خُلوص بو کے تو دیکھو مِرے عزِیز |
| مَیں نے دِیا ہے سبکو، سبھی نے دِیا مُجھے |
| مُجھ کو عزِیز یہ ہے، اِسے مَیں عزِیز ہُوں |
| خُوں میں بہے ہے درد کہ پِی نے دِیا مُجھے |
| دامن سِیا ہے چاکِ گریباں بھی سی لِیا |
| ضِد پر تھا دِل نے چاک نہ سِینے دِیا مُجھے |
| ہنسنے کا فن ہے پاس تو کیوں ہار مان لُوں |
| یہ گُر اُمید آپ ہی کی نے دِیا مُجھے |
| ہوتی ہیں بات بات پہ آنکھیں جو تر مِری |
| احساس ایسا دِل کی لگی نے دِیا مُجھے |
| جِس نے جہاں بھی چاہا نوازا حُضُور نے |
| اِنعام، مُجھ کو لا کے مدِینے، دِیا مُجھے |
| حسرتؔ شہد بھی نوچ کے ہونٹوں سے لے گیا |
| کب زہر اُس نے شوق سے پِینے دِیا مُجھے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات