| غالب یا داغ کا یہ زمانہ تو ہے نہیں |
| لڑتے رہیں گے شعر سنانا تو ہے نہیں |
| تجھ کو بھی دل کی بات بتا نے سے فائدہ |
| تو نے بھی اس کو جا کے بتانا تو ہے نہیں |
| قدموں کے آس پاس پڑا رہنے دو ہمیں |
| تم نے ہمیں گلے سے لگانا تو ہے نہیں |
| اشعار کا یوں قحط ہی پڑنا تھا شہر میں |
| خود سیکھ کر کسی کو سکھانا تو ہے نہیں |
| میں نے لگا دیا ہے الارم کہ روزِ حشر |
| مجھ کو کسی نے عین جگانا تو ہے نہیں |
| اب مسکرا کے پیار سے ہی دیکھ لو ہمیں |
| اس کے سوا اب اور بہانہ تو ہے نہیں |
| وہ دنیا تھی جہاں مجھے اور کام تھے بہت |
| یہ حشر ہے میں نے کہیں جانا تو ہے نہیں |
| اشعار ہیں نہ ہے یہ غزل تجربات ہیں |
| تنخواہ دار کا یہ فسانہ تو ہے نہیں |
| نور شیر |
معلومات