میں اُس کے دَر سے لوٹنے کے مخمصے میں تھا
شب تابِ چشمِ یار تھا جو واسطے میں تھا
منظر پلٹ کے آنکھ سے باہر نہ جاسکا
جادو نگاہِ یار کے اُس حاشیے میں تھا
بِکھرے ہوئے خیال کو ترتیب مِل گئی
مِلنا تِرا شمار مگر حادثے میں‌ تھا
مجھکو کسی کے درد نے چونکا دیا کہ آج
حُزنِ بیاں بھی یار کسی قہقہے میں تھا
نِکلا نہ میری آنکھ کی پُتلی سے آج بھی
وہ دُور جا چکا تھا مگر دائرے میں تھا
میں زندگی کو چھوڑ کے اُس پار, آگیا
تُجھ دلربا کا نام مرے زائچے میں تھا
ممکن نہیں ہے لوٹنا اے رفتگاں مگر
اک لُطف عہدِ زیست تھا کہ ذائقے میں تھا
عاطف جاوید عاطف

0
34