| کسی دن پھر ستم گر ! دوست داری کو میں آؤں گا |
| قسم ، واللہ ! نبھانے رسمِ یاری کو میں آؤں گا |
| ہوئی مدت کہ ہیں محروم آنکھیں لطفِ گریہ سے |
| کوئی دم تیرے در پر آہ و زاری کو میں آؤں گا |
| میسر گر ہوا مجھ کو کبھی فرصت کا اک پل بھی |
| ترے عشرت کدے پر جاں سپاری کو میں آؤں گا |
| توقع تجھ سے کیا رکھوں ، جو مل جائے غنیمت ہے |
| نہ دے گر مجھ کو تو عزت ، تو خواری کو میں آؤں گا |
| ستم کش ! کب تلک جور و جفا کی ضربِ کاری ہو |
| دکھانے اب کہ دل کی زخم کاری کو میں آؤں گا |
| اگر منظور ہو ساقی ! تجھے اس رند کی جرأت |
| تو تیرے مے کدے پر بادہ خواری کو میں آؤں گا |
معلومات