ہُوا ہوں جو گدا اس کی گلی کا
ٹھکانہ ہی نہیں میری خوشی کا
ملائے خاک میں دل ہر کسی کا
پتا ہی کیا اسے شے قیمتی کا
پڑی ہے ایک کے بعد اک مصیبت
نہیں امکان کچھ آسودگی کا
جلا ڈالا تھا ورنہ میرؔ جی نے
بھلا ہو وہ تو احمد یوسفی کا
رہا ہے میرے مطلب میں طبیعات
نہ پوچھو یار کی کیمسٹری کا
طبیبوں کی ضرورت ہی نہیں اب
معالج ہو گیا ہے عشق جی کا
مرے مرقد پہ تنہاؔ آ گئے ہو
بھلا ہو غیر کی ناراضگی کا

0
64