| آنکھ میں اِنتظار دیکھا ہے |
| شخص اک بے قرار دیکھا ہے |
| میری خوشیوں میں میرے ساتھ رہا |
| غم میں جو اشک بار دیکھا ہے |
| اُس کی آنکھوں میں بس گیا ہے تُو |
| جس نے بھی تیرا پیار دیکھا ہے |
| اشک آنکھوں سے خود ہی بہنے لگے |
| دِل کو جب تار تار دیکھا ہے |
| اِک جھلک تیری دیکھنے کے لئے |
| ہر کوئی بے قرار دیکھا ہے |
| رات محفل میں بات ہو نہ سکی |
| بس اُسے بار بار دیکھا ہے |
| تیرے آنے سے کِھل اّٹھا ہوں مَیں |
| میرے رُخ پر نِکھار دیکھا ہے ؟ |
| عشق ہم پر کّھلا ہے مانی تب |
| جِب سے کانٹوں کا ہار دیکھا ہے |
معلومات