لو بات ہو زندگی تو انعام کی جائے۔ |
ہر روز کی اب کہانی تمام کی جائے۔ |
یہ شام کہے راہ لو اپنے گھر کی۔ |
دل کہتا ہے کہ آنکھوں میں شام کی جائے۔ |
ہم خوش کہ مزاج پرسی کی بات اچھی۔ |
کیوں نیند یہ اپنی نظرِ جام کی جائے۔ |
کب مجھ کو دیا ہے خدمت کا موقع۔ |
خدمت کرنی ہے پھر سرِ عام کی جائے۔ |
ہے عمر رواں سے ربط میرا کتنا۔ |
ڈوری یہ سانسوں کی افہام کی جائے۔ |
یہ ایسے گزارنے کا کیا مقصد ہے۔ |
تیرے رو بہ رو بات کی الہام کی جائے۔ |
اب جانے بلا کتنا بھلا موقع تھا۔ |
اندر ہو زباں دہن نہ ابہام کی جائے۔ |
معلومات