| ہم بنے بِن تِرے مہمان، پلٹ آئے ہیں |
| ورنہ کھو بیٹھتے پہچان پلٹ آئے ہیں |
| ایک اکائی نے ہمیں دل میں سمونا چاہا |
| ہم ہمیشہ کے ہی نادان، پلٹ آئے ہیں |
| کیا کہوں تم سے مدینے کا سفر کیسا ہے |
| بارہا ملکوں کے سلطان پلٹ آئے ہیں |
| ہم دلیری سے محبّت کے سفر پر نکلے |
| بیچ میں پڑتا تھا شمشان، پلٹ آئے ہیں |
| تھی تمنّا کہ ترقّی میں وطن کو دیکھیں |
| پایا انسان کا فقدان، پلٹ آئے ہیں |
| چھوڑ کے بزم تو ہم اس کی چلے تھے لیکن |
| چھیڑ دی اس نے وہی تان، پلٹ آئے ہیں |
| ہم جہاں تھے وہ علاقہ تو کوئی قافؔ سا تھا |
| ایسا لگتا ہے پرستان پلٹ آئے ہیں |
| ہم سمجھتے تھے کہ ہم وادئِ سنسان میں ہیں |
| سن کے اِس دشت میں آذان پلٹ آئے ہیں |
| چل پڑے تھے کہ اسے زیر کریں گے حسرتؔ |
| کر کے ہم اپنا ہی نقصان، پلٹ آئے ہیں |
| رشید حسرتؔ |
| ۳۱ اگست ۲۰۲۴، (شام چار بجے مکمل ہوئی) |
معلومات