| محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا |
| نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا |
| نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے |
| دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا |
| گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ |
| بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا |
| یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی |
| کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا |
| مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں |
| جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا |
| ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا |
| کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا |
| عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے |
| دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا |
| تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں |
| کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا |
| رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں |
| سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات