تجھ سے بچھڑے تو جینے کا سبب نہ رہا |
خواب بہت تھے مگر کوئی بھی اب نہ رہا |
ہم بھی بھولے ہیں اپنی سانسوں کا ہنر |
یاد انہیں بھی کوئی وعدہِ شب نہ رہا |
آتے ہیں مجھ سے ملنے درِ مے خانہ مگر |
آتے وہ تب ہیں کہ میں ہوش میں جب نہ رہا |
میں وہ صدائے درد ہوں یارو دُرُون قفس |
جس کے ہونٹوں پہ کوئی نَغمَہ طرب نہ رہا |
اب بھی گریزاں ہے وہ مجھ سے دمِ رخصت |
اب تو کوئی شکوہ بھی زیرِ لب نہ رہا |
معلومات